کلیۃ الشریعہ 4 سالہ پوسٹ گریجویشن کورس داخلہ 2024 طریقہ کار یہاں دیکھیں۔ اس کے ساتھ اس ادارے کے قیام کا مقصد، وجوہات وغراض اور دیگر مفید معلومات پڑھیں۔ مزید اس طرح کی مفید معلومات کے حصول کے لیے ہماری سائٹ وزٹ کریں۔ یا کمنٹس باکس میں ہم سے رابطہ کریں۔
کلیۃ الشریعہ 4 سالہ پوسٹ گریجویشن کورس داخلہ 2024
جامعۃ الرشید کراچی کے تعلیمی شعبہ جات میں سے کلیۃ الشریعہ ایک منفرد خصوصیت کا حامل ہے۔ یہ ان میں ایک بہت پرائم شعبہ ہے۔ نظریہ جامعۃ الرشید کا یہ بنیادی ویژن تھا۔ جس پر جامعۃ الرشید 2000 میں قائم ہوا۔ وہ یہ تھا کہ اس وقت امت جس زوال کا شکار ہے۔ گزشتہ دو ڈھائی،تین سو سال سے۔ اس سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ امت اپنے اصل تعلیمی نظام کوزندہ کیا جائے۔
دین اسلام کا نظام تعلیم و تمام علوم کا اختلاط
اور وہ تعلیمی نظام یہ تھا کہ تعلیم میں دہریت نہ ہو۔ بلکہ ایک ہو ایک ہی چھت کے نیچے دین اور دنیا دونوں کی تعلیم ہو۔ اور دین اور دنیا کی تعلیم کا فرق مٹا دیا جائے۔ کیونکہ اللہ نے دین بھی ہمیں دیا ہے۔ اور دنیا بھی ہمیں دی ہے۔ اور دنیا کے علم بھی دین کے مقصد اور نیت کے لیے حاصل کرنا یہ مسلمان کا فریضہ ہے۔
تاریخ اسلام اورعصری علوم و فنون کی اہمیت و وقعت
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی یہ حکم تھا۔ آپ نے یہودیوں کی بھی ٹیکنالوجی کا صحابہ کو حکم دیا کہ سیکھ لیں۔ فارس والوں کی ٹیکنالوجی بھی سیکھنے کا حکم ہوا۔ اورآگے امت میں ہم دیکھتے ہیں۔ کہ امت مسلمہ میں تیسری صدی ہجری سے لے کر چھٹی صدی ہجری تک۔ تمام علوم میں یکسانیت تھی۔ دورعباسیہ سے دورعثمانیہ تک ایک ہی یونیورسٹی ہوتی تھی۔ جس میں عالم، مفسر، محدث بھی تیارہوتا تھا۔ وہیں پرسائنٹسٹ، وہیں پر فزکس کا ماہر اور وہیں پر آرکیٹیکچر، انجینئرنگ، آرکیالوجی، ایسٹرانومی وغیرہ کے ماہر پیدا ہوتے تھے۔ یہ سارے علوم مسلمانوں نے ایجاد کیے۔ بشمول طب، میڈیکل کے۔
عصری علوم اور مسلم امت کے بزرگ علماء
ہمارے سامنے بوعلی سینا ہیں۔ ہمارے سامنے برطانی ہیں، زہراوی ہیں، ہمارے سامنے ابوبکر راضی ہیں، فلسفے کے ماہر فزکس کے ماہر ہمارے سامنے جوتھیورمز ہیں، میتھس کے اس کے پانی سارے خور زمین انجینئرنگ کے بانی۔ یہ سارے علوم مسلمانوں نے بنائے۔ تو وہ بھی داڑھی پگڑی والے علم حاصل کرنے والے۔ یعنی بنیادی دین کا علم سب کو حاصل ہونا ضروری تھا۔ قران حدیث اور شریعت کی سمجھ بھی ساتھ ہوتی۔ اس کے بعد راہیں تبدیل ہوتی تھی۔ امام رازی کو دیکھیں۔ مفسر بھی ہیں، فلسفی بھی ہیں۔ اور فزکس کے بھی بڑے ماہر ہیں۔ تو ایسی مثالیں بھی بہت ساری ملی ہوئی ہیں۔
جامعۃ الرشید قیام کی وجہ
تو جامعۃ الرشید یہ سمجھتا ہے کہ مغرب نے ہم پر جو حملہ کیا۔ امت میں بہت ساری کمیاں پیدا ہوں گئی۔ ایک کمی تھی کہ ٹیکنالوجی میں امت کم ہو گئی۔ دنیا عصری علوم سے انہوں نے ہمیں پیچھے کھینچ لیا۔ چنانچہ انہوں نے حملہ کیا اپنی ٹیکنالوجی سے اپنی تہذیب سے اپنی تعلیم سے ہم پر غالب آگئے۔ ہمیں ضرورت اس بات کی تھی کہ دین اور دنیا دونوں میں مسلمان جس طرح کامل تھے۔ اپنی سنہری دور میں اس 600 سال کے دور میں اس طرح کامل رہیں۔
مسٹر و ملا کی تفریق اورعلوم اسلامیہ و علوم عصریہ کا اختلاط
اس کا نقصان یہ ہوا۔ کہ مسٹرایک طرف اورملا ایک طرف ہوگئے۔ اوراب تک یہ دو طبقے آج ملک میں لڑ رہے ہیں۔ ایک طرف ملا ہے۔ جبکہ ایک طرف لبرل ہے۔ لبرل بھی مسلمان، ملا بھی مسلمان ہے۔ دونوں مسلمان ہیں۔ اور دونوں نماز بھی پڑھتے ہیں۔ ایمان بھی لاتے ہیں۔ کلمہ بھی پڑھتے ہیں۔ امت کو ایک ہونا چاہیے تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے۔ کہ ہماری تعلیم انگریز نے دو کردی ہے۔ انہوں نے سازش کی اور ہم سادے لوگ اپنے علوم گنوا بیٹھے۔
مسلمان اور دورحاضر کا تقاضہ
اس کی ضرورت ہے کہ ایسے نوجوان پیدا ہوں۔ جو علم دین بھی بڑا مضبوط رکھتے ہو۔ اور ان کے پاس دنیا کے بنیادی علوم بھی ہوں۔ جو ایک سٹینڈرڈ ہوتا ہے گریجویشن تک۔ اور اس کے بعد اس میں اختصاص بھی ہو۔ اس کا دنیا کے علم میں بھی کسی چیز میں سپیشلائزیشن ہو۔ اور دین کے علم میں بھی وہ کام کرے۔ تاکہ دونوں علوم کو ملا کر وہ اسلام کی خدمت کرے۔ توایک کامیاب مسلمان لیڈراس زمانے میں وہی ہے۔ یہ مختلف حلقوں و مختلف طبقات میں مختلف جیسے بیوروکریسی ہے۔
کلیۃ الشریعہ پوسٹ گریجویشن 4 سالہ علم دین کورس داخلہ کی اہلیت
بنیادی اہلیت تو گریجویشن ہے۔ اس کورس کے لیے جامعۃ الرشید میں درخواستیں بہت زیادہ آتی ہیں۔ سابقہ برس400 درخواستیں وصول ہوئی ہیں۔ اس کورس کے داخلہ جات کی حتمی تاریخ کا اعلان تو رمضان المبارک میں ہی ہوتا ہے۔ البتہ سابقہ ترتیب کے مطابق جامعۃ الرشید کلیۃ الشریعہ طلباء کے داخلے جولائی میں اوپن کئے جاتے ہیں۔
سالہ پوسٹ گریجویشن میں داخلے کے مراحل
سب سے پہلے تو پہنچنے والی تمام درخواستوں کی سکریننگ کی جاتی ہے۔
کہ بہت سارے طلباء جن کے گریڈ اچھے نہیں ہوتے۔ ان کو پہلے ہی سے کنسیڈر کردیا جاتا ہے۔
البتہ جن کے اچھے گریڈ ہوں۔ جیسے کہ اے،بی گریڈ یا اے پلس گریڈ ہو۔ یا جن کی تعلیم ٹیکنیکل ایجوکیشن مثلا’ بزنس پڑھا ہوا ہو۔ انجینئرنگ وغیرہ کرچکا ہو۔ تو اس کو ترجیح زیادہ دی جاتی ہے۔
ایسے طلباء کو جامعۃ الرشید بلایا جاتاہے۔ جہاں پران سے ان کا ایک ریٹن ٹیسٹ چار گھنٹے کا لیا جاتا ہے۔ ایٹیٹیوڈ ٹیسٹ کے لیے بہت ماہر حضرات جامعۃ الرشید میں اس ذمے داری کو نبھاتے ہیں۔
اس کے بعد ان کی گروپ ڈسکشنز کراتے ہیں۔ اس میں ان کی ڈیجیٹ ہوتی ہے۔
اور اس کے بعد انٹرویو ہوتا ہے۔ جس میں جامعہ کے سینیئر اساتذہ موجود ہوتے ہیں۔ پھر فائنل رزلٹ میں ایک بیج کے لیے 40 طلباء کو سلیکٹ کیا جاتا ہے۔
کلیۃ الشریعہ پوسٹ گریجویشن کی نمایاں خصوصیات
اس زمانے کا المیہ کیپیٹلزم کے ساتھ یہ آیا۔ کہ ایجوکیشن کمرشلائز ہو گئی ہے۔ پہلے اس زما نے میں لوگ طب کا علم حاصل کرتے تھے۔ استاد بنتے تھے۔ خدمت کے لیے تنخواہ مقصد نہیں ہوتی تھی۔ اس زمانے میں یونیورسٹیز میں 50 50 لاکھ ایک سال کی بہار کی یونیورسٹی میں فیس ہے۔ تو وہاں پڑھنے والے سٹوڈینٹس کا بڑا مقصد یہ بنتا ہے۔ کہ میں نے کمائی کرنی ہے۔ آپ بزنس سکول میں پڑھنے والے اینڈ انجینئرنگ سکول میں پڑھنے والے بچوں سے پوچھیں گے۔ ان میں شاید ہی کوئی کہے میں خدمت کے لیے پڑھنا چاہتا ہوں۔
علوم دینیہ اور علوم عصریہ کے حصول میں فرق
جبکہ دین کے علم کی ساخت یہ ہے کہ اس کی ساخت ہی میں فرق ہے۔ کہ انسان خدمت کے لیے دین پڑتا ہے۔ پھر جو تنخواہ ہوتی ہے۔ وہ اس کے گزر بسر کے لیے ہوتی ہے۔ یہ نظریہ ختم ہو گیا اس وقت میں امت میں لیڈرشپ کا ایک خلا ہے۔ جو حدیث میں بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امت سے علماء یعنی لیڈرشپ ختم ہو جائے گی۔ لوگ جاہلوں/نااہلوں کو اپنا لیڈر بنائیں گے۔ پوری دنیا میں ہم دیکھتے ہیں۔ لیڈرشپ کا عالم اسلام میں فقدان ہے۔ لوگ بہت ہیں لیڈر یعنی جس میں دین کا علم دنیا کا علم فراست ایمان، دیانت، تربیت، سمجھ روحانی اور ظاہری دونوں موجود ہوں۔ ایسے لوگ بہت کم ملتے ہیں۔
کلیۃ الشریعہ پوسٹ گریجویشن 4 سالہ بنانے کے اغراض و مقاصد
اس لیڈرشپ کے لیے یہ جامعۃ الرشید نے کلیہ بنایا تھا۔ اور وہ جو مقصد تھا کہ جن کو دین اور دنیا دونوں کا علم ہو۔ ایسے لوگ تیارہوں۔ تو ہم ان نوجوانوں کو ڈھونڈ کر یہ کہتے ہیں۔ کہ بھائی وہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ تعالی نے بیت المقدس فتح کرنے کا عزم کیا تھا۔ اورکہا تھا میں سوؤں گا نہیں۔ جب تک میں بیت المقدس کو فتح نہ کردوں۔ بستر پہ نہیں سوؤں گا۔ زمین پہ سویا کرتے تھے۔ تو وہ جو فوجوں کو جمع کرتے تھے تو وہ گھوڑوں اپنے گھوڑے کو نا صفوں میں دوڑایا کرتے تھے۔ اور ارشاد فرماتے تھے کہ اسلام کے لیے کون میدان میں ہے۔ سبھی توکئیریر، مستقبل بنانے میں لگے ہیں۔ کوئی تو رسول اللہ کے دین کے لیے بھی زندگی گزارلے۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے یہ ادارہ شروع کیا گیا۔
جامعہ کے تعلیمی شعبہ جات و داخلہ کا طریقہ کار۔
جامعہ کے مزید تعلیم شعبہ جات کے بارے میں معلومات کے حصول کے لیے ہماری سائٹ وزٹ کریں۔ اس کے ساتھ ہی ان شعبہ جات کی ابتداء، اغراض و مقاصد اور شرائط وغیرہ کے بارے میں بھی مکمل معلومات حاصل کریں۔ مطلوبہ معلومات تک رسائی نا ہونے کی صورت میں کمنٹس باکس میں ہمارے ساتھ رابطہ فرمائیں۔