فروغ اسلام میں دینی مدارس کا کردار(حصہ اول)

فروغ اسلام میں دینی مدارس کا کردار(حصہ اول)

علمی و تحقیقی مضامین

بعث نبوی ﷺ سے قبل دنیا میں ہمیں کسی ملک یا قوم میں کسی ایسی اصلاحی اور تعلیمی تحریک  کا شائبہ تک نہیں ملتا جس سےیہ ثابت ہوسکے کہ تعلیم کو ہر انسان کی بنیادی ضرورت قراردیاگیاہواور علم اور ضرورت علم یا اس کی فضیلت کوآشکار کرکے اسکے حصول کا اہتمام کیا گیاہوعرب کے لوگ پڑھنالکھنا نہیں جانتے تھے یہودیوں اور عسائیوں میں بھی تعلیم کا نام ونشان  نہیں تھا۔جو تعلیم پادریوں میں پائی جاتی تھی وہ صرف بائبل کے حروف سیکھنے تک محدود تھی اس میں ترجمہ اور تفسیرشامل ناتھےیا ان بے بنیادداستانوں کو علم کا درجہ دےدیاگیاتھاجو یہودیوں کے درمیان رائج تھی پھر ان کا درجہ وحی کے برابر تسلیم کرلیاگیاتھا۔

The role of Madaris in the promotion of Islam

The role of Madaris in the promotion of Islam

بہت زیادہ ترقی کی صورت میں رامائن اور مہابھارت کے قصےمنتہائے علم سمجھے جاتے تھے یہی حال دیگرممالک چین ایران اور یورپ کا بھی تھا لیکن تاریخی مطالعہ کے بعد دورجاہلیت کے لوگوں میں  علم وادب سے لگاوں اور اس شعبے میں مہارت کی نفی کرنا بھی ممکن نہیں ہے اس کی ایک واضح مثال توا س دور کا بازار عکاظ بھی ہے جس کی علمی اور ادبی حیثیت کی وجہ سے اسے بنن العرب مجلس کا نام دیاجاتاتھاتاریخ بتاتی ہےکہ فیضان بن امیہ اور ابوقیس عبد مناف مکہ کے اولین باشندے تھے جنہوں نے قرات اور کتابت کی تربیت حاصل کی تھی ان کا استاد مسیحی فرقے  سےتعلق رکھتاتھا جس کا نام بشیر بن عبدالملک تھا جس نے الحیرہ میں یہ فن حاصل کیاتھا عربوں میں جس شخص نے پہلی بار اس فن کو پیشے کے طور پر اختیار کیا وہ وادی ا لقریٰ کا باشندہ تھا جس نے اپنے علاقہ کےلوگوں کو قرات اور کتابت کی تعلیم دینا شروع کی ۔قوموں کے عروج وزوال کی تایخ میں اگرکسی مؤثرتاریخ سازعامل کی تلاش کی جائے تو یہ بات بلا خوف وتردید کی جا سکتی ہے کہ اس میں سرفہرست تعلیم آتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین میں اپنا خلیفہ بنانے کےلیے سب سے پہلے جس چیز سے اس کو آراستہ کیا وہ علم تھا اور اپنے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو جو کام سونپا اس میں تعلیم کتاب وحکمت اورتزکیہ نفس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اسی مقصد کے حصول اور اس کو عملی جامہ پہنانے کےلیےہجرت کے بعد نبی کریم  ﷺمسجد نبوی کے شمال مشرقی جانب ایک چبوترا قائم کیا جس کوصفہ کا نام دیاگیایہ مدینہ میں اسلام کی وہ پہلی درسگاہ تھی جہاں اہل  صدق صفاکی ایک جماعت رہتی تھی مدینہ میں یہ اسلام کا پہلا تعلیمی ادارہ ،مدرسہ ،جامعہ  تھا جہاں  بڑی بڑی مقدس ہستیاں علم  کے نور سے آراستہ ہوتے اور یہ پہلی درسگاہ تھی جہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ رہائش اور کھانا کا بھی اہتمام کیاجاتاتھااور طلبہ زیورتعلیم سے آراستہ ہوتے تھے اس جامعہ میں نبی کریم ﷺ مستقبل کے وہ شاہکار اور علم کے سمندر تیارفرمارہے تھے جن کی ضیاء سے اسلام کو فروغ ملا اور اسلام دور دراز علاقوں میں پھیلا یہ وہ متعلم تھے جو علم و عشق کے ساتھ ساتھ زیارت مصطفیٰﷺ سے بھی مستفیض ہوتے ۔

رسول اللہ ﷺکی تعلیمی پالیسی کا آغاز ہجرت مدینہ کے بعدہوتاہے آپ ﷺ نے مدینہ میں 10 برس گزارے اس قلیل مدت میں اس نوزائیدہ ریاست کو پائے تکمیل تک پہنچانے کےلیے انتھک کوشش کی ،دن کا چین اور رات کا آرام آپ ﷺ نے اسلامی ریاست کو مستحکم کرنے میں صرف کردیاآپ ﷺ کی چشتم بصیرت دیکھ رہی تھی کہ جب تک معاشرہ سیاسی لحاظ سے مستحکم نہ ہوگا اور بیرونی حملوں سے محفوظ و مامون نہ ہوگا یہاں علمی ترقی نہیں ہوگی فنون لطیفہ کو فروغ حاصل نہ ہوگا چنانچہ معاشرے کو اندرونی معاملاست سے بچانےکے لیے فوری طورپر تین قدم اٹھائے۔

اول،میثاق مدینہ اس کی رو سے مدینہ کے تمام گروہ مع قبائل یہود یکجا ہوگئے تنازعہ کی صورت میں آپﷺ کا فیصلہ حتمی ہوتا۔دوم،مواخات اس اقدام کے تحت ایک مہاجر ایک انصاری مسلمان کا بھائی بنادیاگیاجو اس کی معاشی کفالت کاذمہ دارتھا۔سوم،مسجد نبوی ﷺ اور پہلا دارالاقامہ پہلامدرسہ وہ پہلا جامعہ جو مسلمانو ں کی تعلیم وتربیت کےلیے ایک مرکز کا قیام ضروری تھا جس کےلیے مسجد نبویﷺ کے ساتھ مسلمان طلبہ کے لیے علحدہ جگہ مخصوص کردی گی جسے صفہ کا نام دیاگیایہ اسلام کی پہلی اقامتی یونیورسٹی تھی اس پالیسی کے تحت آپ ﷺ نے تین طریقے شروع کیئے۔

ابتدائی لازمی تعلیم ،تعلیم بالغاں اور تعلیم نسواں جس کو نبی کریم ﷺ نے اس اندازمیں مرتب فرمایا۔نبی کریم ﷺنے ابتدائی تعلیم کو مفت قراردیا ہر جمہوری اور ترقی پسند ریاست کا اولین فریضہ ہوتا ہےکہ وہ پانے تمام ریاستی نوجوانوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرے یہ تعلیم بغیرکسی تعصب اور بغیر کسی تفریق کے عام کی جاتی ہے  ذات پات رنگ نسل شہری بدوی ہر ہر طرح کی تمیز اس سے ختم کی جاتی ہے۔فرمان خداعزوجل ہے کہ “واعدوالھم مااستظعتم من قوۃ” اورمسلمانوں اپنے مقدوربھرقوت پیداکرکے اور گھوڑے تیاررکھ کردشمنوں کے مقابلے کےلیے اپنا سازوسامان مہیاکئے رہو۔امام جلال الدین سیوطی رحمۃاللہ علیہ اس آیت کیرمیہ کی تفسیر میں یہ حدیث  پاک نقل فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا “حق الوالدعلی لوالدان یعلمہ الکتابۃ والسیاحۃ والرمی”اولاد کے حقوق میں یہ بات شامل ہےکہ باپ اپنے بچے کو جہاں تیرنا اور تیرچلانا سکھائے وہاں اسے لکھنا پڑھنا بھی سکھائے۔

دوسرے مقام پر ارشادباری تعالیٰ ہے کہ”یایھاالذین آمنو اقواانفسکم واھلیکم نارا”اے ایمان والوں تم پانے آپ اور اپنے اہل وعیال کو آگ سے بچاؤ۔ امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ارشادفرماتے ہیں کہ” علمواانفسکم واھلیکم الخیروادبوھم”اس سے مرادیہ ہے کہ تم خو کو اور اپنے گھر والوں کو نیکی کی تعلیم دواورانہیں آداب سکھاؤ۔بیوی اولاد کا حق صرف ان کی ضروریات زندگی اور کھانے پینے کی  چیزوں کے فراہم کرنے سے پورانہیں ہوجاتا ان سے زیادہ اہم ان کی روح اور جان کی غذا کا مہیاکرنااور صحیح اصول تعلیم وتربیت کو عمل میں لاناہےصحابہ کرام رضی اللہ عنہ شیوخ اور نوجوان سبھی کو سلام  کرتے اور سبھی سے قرآن وسنت کا علم حاصل کرتے تھے یہی وجہ ہیے کہ وہ علم کے سمنداور فقہ و حکمت کے پہاڑ ثابت ہوئے البتہ اگربچپن میں علم حاصل کیاجائےتو وہ دماغ میں ایک ایک طویل عرصہ تک راسخ رہتا ہے اس عمر میں علم کی فروغات جلد ازبرہوجاتی۔

انسان کی حیات بہت مختصر ہے بچپن،شباب اور کہولت ان سب مراحل کے فرائض  مختلف ہیں۔تعلیم حاصل کرنے کا بہترین وقت ملازمت اور شادی سے پہلے کا ہےامام بخاری رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل فرماتےہیں کہ”تعلموا قبل ان تسودوا”(سرداربننے سے پہلے علم حاصل کرو) قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ نے تسودوا کا معنی تزوجوکیا ہےیعنی شادی کرنے سے پہلے علم حاصل کرو۔

دوسراتعلیم بالغاں کا طریقہ کو اس اقامتی یونیورسٹی میں ترتیب دیا یہ وہ طریقہ تھا جس میں ایسے افراد جو کسی معاشی مجبوری ، ملازمت یاسہل پسندی کی وجہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ گئے ہوں اور ان کی عرم زیادہ ہوگئی ہو ان کی تعلیم میں مدددینا تعلیم بالغاں کہلاتاہے۔تاکہ وہ کم از کم لکھنے پڑھنے اور اپنے پیشوں سے متعلق حسا ب کتاب میں ماہر ہوسکیں۔ خوشگوار زندگی کے اہل بن سکیں اور وقت کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال سکیں ۔رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں آکرفوری طورپراس دوسری پالیسی پر بھی عمل شروح کیا تاکہ کوئی علم کی نعمت سے محروم نہ رہ جائے اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس وقت تعلیم حاصل کی جب وہ ادھیڑ عمر کو پہنچ چکے تھے اور آخری عمر میں وہ علم کے سمندر ثابت ہوئےروایات میں آتاہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ سے دس آیات سنتے تھے تو جب تک ان آیات کا علم اور احکامات سیکھ کرعمل نہ کرلیتے تھے،

سرورکائنات ﷺ ان کو آگے سبق نہیں دیاکرتے تھےحضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ “استوصوالعلم الاحداث” (علم کو بالغوں کے حوالے کردو)مجمع الزوائد میں  حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہےآپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ” مابعث اللہ نبیاالا وھوشاب ولااوتی عالم علماالاوھوشاب”(اللہ نے کسی کو نبی مبعوث نہیں کیا مگرجب وہ جوان تھا اور کسی عالم کو علم نہیں دیا مگر جب وہ جوان ہوا)ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس قراء سے بھری ہوئی تھی ان میں نوجوان اور عمر رسیدہرقسم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم موجود تھےآپ جب بھی ان سے کسی مسئلہ پرمشورہ کرتے توفرماتےتم  میں سے کوئی شخص اپنی کم عمری کی وجہ سےاظہاررائے سے نہ شرمائے کیونکہ علم کم عمری یا بڑی عمرکی وجہ سےنہیں ماپا جاتا یہ تو ایک نعمت ہے جسے اللہ چاہتا ہے عطاکردیتاہے۔

تیسراطریقہ تعلیم نسواں کے لیے الگ باپردہ انتظام ترتیب دیاگیا نبی کریم ﷺ نے جس طرح بچوں اور بالغوں کی تعلیم پر زوردیاوہاں عورتوں کی تعلیم پر بھی زور دیا یہ آپﷺ کی تیسری پالیسی تھی امام ان حجر فرماتے ہیں کہ جس طرح آدمی اپنے اہل کو تعلیم دیتا ہے اس طرح حاکم وقت بھی عورتوں کو تعلیم دے سکتاہے اور اس کا نائب بھی دے سکتاہے۔آپ ﷺ نے عورتو ں کے لیے ایک الگ د مقرر فرمایااس روزآپﷺ حضرت بلال رضی اللہ کی معیت میں خواتین کے اجتماع میں تشریف لے جاتے اور عورتوں کو وعظ ونصیحت فرماتے۔حضرت یسیرہ رضی اللہ عنہامہاجرات میں سے تھیں وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں تعلیم دیتے ہوئے فرمایا”تسبیح وتہلیل اور تقدیس کو لازم کروکیونکہ ان سے پوچھا جائے گا اور انہیں قوت گویائی عطاکی جائے گی ا ورغفلت نہ کرنا کہ رحمت کو بھول جاؤ”رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں میں سب سےزیادہ حیا والے تھےچنانچہ آپ ﷺ کی ازواج آپ ﷺ کے وہ اقوال اور افعال بیان کرتی تھیں جنہیں رسول اللہ ﷺ لوگوں کو خود بیان نہیں کرسکتے تھے یہ وہ طریقہ تھا جس کے ذریعے سے علم کا ایک کثیر خزانہ امت مسلمہ تک پہنچا۔

تحریر:آصف حسین جلالی القادری

1 thought on “فروغ اسلام میں دینی مدارس کا کردار(حصہ اول)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *