غصے پر قابو پاکر ماحول کو خوشگوار بنائیں۔

غصے پر قابو پاکر ماحول کو خوشگوار بنائیں۔

جمعہ کے بیانات علمی و تحقیقی مضامین

ٹینشن کے اس دور میں غصے پر قابو پاکر ماحول کو خوشگوار بنائیں۔ غصہ کیا ہے غصہ کیوں آتا ہے۔ اس کی وجاہات کیا کیا ہیں۔ اس کے فوائد و نقصانات اور اس کو قابو کرنے کا کیا طریقہ اسلام نے دیا ہے۔ تمام تر تفصیلات وزٹ کریں۔

غصے پر قابو پاکر ماحول کو خوشگوار بنائیں۔

حضرت ابو ہرہرہ رضی للہ تعالی عنہ سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ کہ پہلوان اور طاقت ور وہ شخص نہیں۔ جو دوسرے کو بچھاڑ دے۔ بلکہ طاقت ور وہ ہےجو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو پالے۔

غصہ کیا ہے اور کیوں آتا ہے؟

انسان جب اپنےمزاج،خیالات،اصولوں اور خواہشات کے خلاف کوئی بات ہوتی دیکھتا ہے۔ تو اسکی طبیعت میں شدت پیدا ہوجاتی ہے۔ اسے غصہ کہتے ہیں۔ انسان میں غصہ ہونا ایک خوبی ہے۔ اور غصہ نہ آنا ایک عیب ہے۔ اس لیے اگر انسان اصولوں اور مزاج کے خلاف بات دیکھے۔ اوراس کے باوجود طبیعت میں شدت محسوس نہ کرے۔ تو یہ بزدلی ہے۔ جسے عربی میں جبن کہتے ہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے یہ دعا مانگی ہے۔ اے اللہ میں بزدلی سے آپکی پناہ مانگتا ہوں۔

غصہ کی کتنی اقسام ہیں۔

لیکن یہ طے کرلینا چاہیے کہ کونسا غصہ اچھا ہے۔ اور کونسا برا ہے۔ اس کے لیےبہت آسان سی پہچان ہے۔ اگر احکام شرعیہ یعنی اللہ تعالی اور اسکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی خلاف ورزی پر غصہ آئے تو بہت اچھا ہے۔ لیکن اس غصے پر عمل اور اس کا اظہار بھی احکام شرعیہ کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ ورنہ یہ غصہ بھی وبال جان بن سکتا ہے۔ جیسے اولاد کے نماز نہ پڑھنے پر غصہ آنا۔ اولاد کی نافرمانی پر غصہ آنا۔ دوسرے لوگوں کو اسلامی احکامات کے خلاف عمل کرتا دیکھ کر غصہ آنا۔ یہ غصہ کمال ایمان کی علامت ہے۔ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایات دیں۔ کہ اگر تم میں سے کوئی برائی کو ہوتے دیکھے۔ تواپنے ہاتھ سے روکے۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے۔ اگر یہ بھی نہ کرسکتا ہو تو کم از کم اس برائی کو دل سے برا سمجھے۔

غصہ کی ممنوع صورت جس سے اسلام نے روکا ہے۔

اگر غصہ اپنے مفاد،یا اپنے خیالات،ذاتی اصولوں اور خواہشات کے خلاف ہوتا دیکھ کر غصہ آئے۔ تو اس غصہ کو دبا دینا اور بجھانا ضروری ہے۔ یہی غصہ برا ہے۔ قرآن حکیم میں متقین کی صفات بیان کرتے ہوئے ایک صفت یہ بھی فرمائی(وہ لوگ غصہ کو بجھانے والے ہوتے ہیں)معلوم ہوا کہ انسان کے اندر غصہ ہونا چاہیے۔ لیکن متقی کی خوبی یہ ہے۔ کہ وہ اپنے غصے پر قابو رکھتا ہے۔ شریعت میں جس غصے کی ممانعت اور اس کی برائی بیان کی گئی ہے۔ اس سے مراد وہی غصہ ہے کہ جو نفسانیت کی وجہ سے ہو۔ اور اس غصہ میں مبتلا ہوکر انسان اللہ کی حدود سے تجاوز کرجائے۔ اور احکام شریعت کا پابند نہ رہے۔

غصہ کی ممدوح صورت جس کی اسلام نے حوصلہ افزائی کی ہے۔

لیکن جو غصہ اللہ کی خاطر ہو۔ حدود الہیہ سے تجاوز نہ ہو۔ تو یہ کمال ایمان کی نشانی اور جلال خداوندی کا عکس ہے۔ اب اگر ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں۔ تو معلوم ہوگاکہ ہمیں شاید پانچ چھ فیصد ہی جائز غصہ آتا ہو۔ ورنہ معاشرہ میں عموما ذاتی خواہشات، مفادات اور ذاتی اصولوں کےخلاف ہوتا دیکھ کر ہی غصہ آتا ہے۔ اور اسی قسم کے غصہ نے گھروں،محلوں،علاقوں اورخاندانوں میں فسادات کی آگ بھڑکارکھی ہے۔ے

غصہ کے نقصانات

ادب ِعربی کاایک بڑا قیمتی جملہ ہے۔(غصہ کی ابتدا پاگل پن اور انجام شرمندگی ہے)انسان غصہ میں مبتلا ہوکر بلڈ پریشر ہائی ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو طاقت ور اور بہادر سمجھتا ہے۔ اوربر ابھلا کہتا اور مارتا پیٹتا ہے۔ توڑ پھوڑ کرتا ہے۔ بسا اوقات قتل تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ لیکن یہ بات بھی قطعی ہے کہ چاہے کتنے مضبوط اعصاب کا مالک ہو۔ کتنا ہی شقی القلب کیوں نہ ہو۔ آخر کار اپنے کیے پر شرمندہ ضرور ہوتا ہے۔

غصہ کا علاج حدیث مبارکہ کی روشنی میں

اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہادر وہ نہیں کہ جو دوسرے کو بچھاڑ دے۔ بلکہ بہادر وہ ہے۔ جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو پالے۔ اگر غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو۔ تو اسے چاہئےکہ بیٹھ جائے۔ اگر غصہ ختم ہوجائے۔ تو ٹھیک ورنہ لیٹ جائے۔(رواہ الترمذی عن ابی ذرہ رضی اللہ عنہ)
در اصل جب انسان غصہ میں ہوتا ہے۔ تو اس کے اعصاب میں تناؤ آجاتا ہے۔ جب وہ اپنی جسمانی کیفیت کو بدلےگا۔ تو اعصابی تناؤ میں کمی واقع ہوگی۔ اور اس طرح غصہ کم ہوجائے گا۔ غصہ میں اپنے آپ پر قابو پانے کے بارے میں حضور علیہ السلام نے یہ بھی ہدایت دی کہ جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے۔ تو اسے چاہیے کہ اسی وقت خاموش اختیار کرلے(رواہ احمد عن ابن عباس رضی اللہ عنہ)
بارہا تجربہ میں یہ بات آئی ہے۔ کہ انسان غصہ کے وقت جو منہ میں آئے کہدے۔ تو اس سے حالات اور زیادہ بگڑ جاتے ہیں۔ لیکن غصہ کے وقت خاموش ہوجائے۔ تو ذہن ٹھنڈا ہونے کے بعد اس بات کا اتنا عمدہ حل اور علاج ذھن میں آتا ہے۔ کہ وہ مسئلہ بخوبی حل ہوجاتاہے۔
ابو داؤد میں عطیہ بن عروہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں غصہ کا ایک عمدہ علاج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ کہ غصہ شیطان کے اثر سے آتا ہے۔ اور شیطان کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے۔ اور آگ کو پانی سے بجھایا جاتا ہے۔ لہذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے۔ تو اسے چاہیے کہ وضوء کرے۔ اور طبی نقطہ نظر سے بھی یہی ہدایت کی جاتی ہے۔ کہ جب بلڈ پریشر ہائی ہوجائے۔ چہرہ تپنے لگے۔ تو ٹھنڈے پانی کے چھینٹے منہ پر مارے جائیں۔ اب ارشاد بنی پع رمل کرتے ہوئےآدمی غصہ کو بجھائے تو ثواب ملا اور علاج بھی ہوا

غصہ پی جانے والوں کے لیے جزا اور انعامات۔

غصہ پر قابو پانے کی فضیلت۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ کی روایت سے بہت اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کہ کسی بندے نے کسی چیز کا کوئی گھونٹ ایسا نہیں پیا۔ جو اللہ تعالی کے نزدیک غصہ کے اس گھونٹ سے افضل ہو۔ جسے کوئی بندہ اللہ تعالی کی رضا کی خاطر پی جائے۔(رواہ ترمذی و ابو داؤد)
بیہقی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ارشاد نبوی منقول ہے۔ جو کوئی اپنے غصہ کو روکے گا۔ تو اللہ تعالی قیامت کے دن اس پر اپنے عذاب کو روکے گا۔

مدارس اسلامک مضامین تحقیقی و بکس

مدارس سے متعلقہ مفید معلومات کے حصول کے لئیے ہماری سائٹ وزٹ کریں۔ درس نظامی کتب وشروحات کے حصول کے لئیے۔ اسی طرح اصلاحی و تحقیقی مضامین کے لئیے ہماری سائٹ پر تشریف لائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *