پاکستان کی تحریک آزادی میں علماء دیوبند کے کارنامے، ان کا کیا کردار رہا انہوں نے اس راہ میں کیا کیا قربانیاں دی ہیں یہ تمام تر تفصیلات و معلومات یہاں موجود ہیں۔
پاکستان کی تحریک اور علماء دیوبندکا کردار
یہ ایک حقیقت ہے کہ اس برصغیر پاک و ہند میں اسلامی حکومت کے بقاء اور استحکام کے لئے اور پھر سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد اس کے قائم کرنے اور مسلمانوں کے استقلال کے لیے علما ءحق کی مساعی جمیلہ اور انکی جد و جہد کا سلسلہ از بس طویل ہے۔علما ء دیوبند نے غیر اسلامی اقتدار کو ہٹانے میں شاندار اور نمایاں حصہ لیا ، پھر قیام پاکستان کے بعد بھی اس کی تعمیر و ترقی میں نہ صرف یہ کہ حصہ لیا بلکہ ہر موقع پر قیادت و امامت کے فرائض انجام دیے اور پاکستان کی مخالف قوتوں کے سامنے ہمیشہ سینہ سپر رہے، علما ءدیوبند کے زریں کارناموں اور ملکی و ملی خدمات کے تذکروں سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں اور زبان حال سے کہ رہے ہیں
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما
حکومت برطانیہ اور دہلی حکومت
حکومت برطانیہ کے خلاف جو جنگ لڑی گئی اس میں شیخ المشائخ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی سرپرستی میں حضرت حافظ ضامن شہید، مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی وغیرہ،نیز دوسرے اکابر علماء دیوبند تھانہ بھون نے مجاہدانہ حصہ لیا اور تھانہ بھون سے شاملی تک کے علاقے میں اسلامی حکومت قائم کرلی ،لیکن حکومت دہلی کی ناکامی کی وجہ سے یہ سلسلہ آگے نہ بڑھ سکااور فتح شکست میں بدل گئی۔
علمائے دیوبند کا تحریک آزادی میں دیگر ممالک کا دورہ
ی1916ں شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب ،شیخ لحدیث دارالعلوم دیوبند نے افغانستان، شام اورترکی کے سربراہان ِ مملکت اور ان کے گورنروں انور پاشا اور غالب پاشا سے اپنے نمائندوں مولانا عبیداللہ سندھی وغیرہ کے زریعے اور خود حجاز ِمقدس کا سفر کرکے ان سے ملاقات کی اور ہندوستان پر حملہ آور ہونے اور اسلامی حکومت کے قیام کا منصوبہ بنایا، بعض لوگوں کی جاسوسی کی وجہ سے وہ اسکیم بار آور نہ ہوسکی ۔
شریف مکہ حکومت کا کردار
ادھر شریف ِمکہ نے حکومت برطانیہ کے مطالبے کے سامنے سر ِتسلیم خم کرکے شیخ الہند کو حکومت برطانیہ کی حراست میں دے دیا۔
بالآخر شیخ الھند مولانا محمود حسن دیوبندی، مولانا حسین احمد مدنی،مولانا عزیز گل ،حکیم نصرت حسین۔مولوی وحید احمد برادر زادہ مولانا مدنی کو جزیرہ مالٹا مصر میں تقریبا چار سال کی قید و بند کی مشقتوں کو برداشت کرنا پڑا ، رہائی کے بعد بھی ان حضرات نے ملکی سیاسیات اور انگریزوں سے ہندوستان
کو آزاد کرانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔
حضرت شیخ الھند جب دنیا سے رخصت ہوگئے
تو انکے نامور تلامذہ اور جانشینوں مولانا انور شاہ کشمیری، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا عبیداللہ سندھی وغیرہ حضرات نے ملکی سیاسیات میں بھرپور حصہ لیا ، علما ء دیوبند کے کے سیاسی کارناموں اور مجاہدانہ کاوشوں سے چشم پوشی ایک زندہ حقیقت کو جھٹلانا ہے۔حالانکہ علماء دیوبند کی ایک جماعت تحریک آزادی ہند میں اپنی صوابدید کے مطابق حصہ لے رہی تھی اور قربانیاں پیش کررہی تھی تو دوسری طرف ایک جماعت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی سرپرستی میں مسلمانوں کے علیحدہ تشخص اور قومی امتیاز قائم کرنے اور ان کے حقوق کے تحفظ کےلیے کوشاں اور ساعی تھی۔
حکیم الامت حضرت تھانوی کو قائد اعظم محمد علی جناح اور دیگر ارکان مسلم لیگ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں منعقدہ 23 اپریل 1943ء بمقام دہلی میں شرکت کے لئے ان الفاظ میں دعوت دی: آپ سے استدعا ہے کہ اس موقعہ پر خود دہلی تشریف لاکر اپنے ارشادات سے مجلس کو ہدایت دیں تو اگر حضور تشریف نہ لاسکیں تو اپنے کسی نمائندہ کو بھیج کر مشکور فرمائیں اور اللہ تعالی اس اجتماع کے رعب سے غیر مسلموں کے دلوں کو مسحور کردے اور ہمارا مطالبہ ہاکستان منوادیں تاکہ سلطنت ِ اسلامی قائم ہوسکے۔
مولانا عبدالماجد دریابادی لکھتے ہیں:
پاکستان کا تخیل خالص اسلامی ریاست کا خیال سب آوازیں بہت بعد کی ہیں،پہلے پہلے اس قسم کی آوازیں یہیں تھانہ بھون میں کانوں میں پڑیں۔(حکیم الامت:ص:33)
حضرت تھانوی کی دلی تمنا اور دلی دعا تھی کہ اللہ تعالی حکومت ِعادلہ مسلمہ قائم فرمادیں اور میں اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں۔(سعدلابرار ص237)
علامہ اقبال کا خطبہ صدارت۔
یہ 1928ءکی بات تھی جس میں حضرت تھانوی نے پاکستان کی اسکیم اور اس کےلیے نظام شرعی اسلامی عدالتوں کا قیام وغیرہ کا نقشہ تیار فرمادیا تھا ۔بعد میں علامہ اقبال مرحوم نے اپنے خطبہ صدارت آل انڈیا مسلم لیگ الہ آباد منعقدہ 29 دسمبر 1930ء میں اس تخیل کا اظہار کیا ۔ پھر مارچ 1940 کو اسکا بطور ملی نصب العین کے مسلم لیگ کی طرف سے قرار داد پاکستان کی صورت میں مطالبہ کیا گیا۔
جب تک مسلم لیگ نے کانگریس سے علیحدہ ہوکر مسلم قوم کے تشخص اور مسلمانوں کے قومی استقلال کا مطالبہ نہیں کیا گیا اس وقت تک حضرت تھانوی نے مسلم لیگ کی بھی تائید نہیں فرمائی، جب مسلم لیگ نے 1938 میں جھانسی الیکشن میں کانگریس کا مقابلہ کیا اس وقت حضرت تھانوی نے کانگریس کو ووٹ نہ دینے کا تار جھانسی بھجوا کر مسلم لیگ کی حمایت کی جس پر مسلم لیگ کو کامیابی ہوئی اور اس خوشخبری کو سنانے کے لیے مولانا شوکت علی، مولانا مظھر الدین یکم اپریل 1938 کو تھانہ بھون آئے اور وہاں ایک عظیم جلسہ ہوا ، جلسے میں حضرت تھانوی کے حکم سے مولانا ظفر احمد عثمانی نے تقریر فرمائی اور حضرت کا تائیدی بیان پڑھ کر سنایا۔
حضرت تھانوی اور قائد اعظم
بہرحال حضرت تھانوی قائد اعظم کو وقتا فوقتا اپنے مفید اصلاحی مشوروں سے بھی بزریعے خط اطلاع دیتے رہتے تھے اور یہ باہمی خط و کتابت کا سلسلہ حضرت کے آخری وقت تک جاری رہا۔
آج بھی حضرت تھانوی کا ایک خط بنام ِقائد ِاعظم اسلام آباد میں ان کے کاغذات میں محفوظ ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے موقعہ پر تیسرا وفد حضرت تھانوی نے آرمی بل سے متعلق مسلم لیگ کے موقف کی وضاحت کےلئے بھی قائد اعظم کے پاس بھیجا تھا جس میں شبیر علی تھانوی ،مولانا ظفر احمد عثمانی اور مولانا مفتی محمد شفیع صاحب شامل تھے،سھارنپور کے ایک حلقہ میں یوپی اسمبلی کے مسلم لیگ اور کانگریس کا مقابلہ ہوا ۔اس الیکشن میں بھی حضرت تھانوی نے مسلم لیگ کے امیدوار کو ووٹ دینے کی ترغیب دی۔ چناچہ مسلم لیگ کے امیدوار مولوی منفعت علی سھارنپوری یوپی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوگئے۔
حضرت حکیم الامت تھانوی کا مسلم لیگ کی تائید میں ایک تفصیلی فتوی تنظیم المسلمین کے نام سے 1352ھ میں شائع ہوا جو امداد الفتاوی جلد 4 کے 225 سے 631 تک پھیلا ہوا ہے۔ حضرت تھانوی شرح صدر کے ساتھ مسلم لیگ میں داخل ہوئےاور اس کی اصلاح میں کوشش کرنے کا حکم فرمایاہے۔
علماء کا کردار
دیوبندی حلقے کے سرخیل اس وقت چونکہ حضرت حکیم الامت حضرت تھانوی تھے ۔انہوں نے واضح طور پر مسلم لیگ کی تائید و حمایت فرمائی تھی۔اس لیے حضرت تھانوی کے لاکھوں عقیدت مند اور ہزاروں متوسلین جن میں سینکڑوں کی تعداد علماء کرام کی ہی تھی ،سب نے تحریک پاکستان میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مطالبہ پاکستان کی ہر طرح سے تائید و حمایت کی، خصوصیت سے شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ، مفتی شفیع دیوبندی ،مولانا مرتضی حسن چاندپوری ،مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوری،علامہ سید سلیمان ندوی ،مولانا مفتی محمد حسن امرتسری،مولانا خیر محمد جالندھری ،مولانا اطھر علی سلہٹی ، مولانا شاہ وصی اللہ اعظمی ،مولانا قاری طیب قاسمی اور مفتی عبدالکریم گمتھلوی وغیرہ حضرات نے حکیم الامت تھانوی کے اس مشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کےلیے جس کا ذکر کیا 1928ءمیں کیا تھا، تحریک پاکستان میں سب سے زیادہ حصہ لیا ،ان حضرات نے ہندوستان کے چپے چپے اور گوشے گوشے میں اپنی تقریروں اور عملی جد و جہد کے زریعے تحریک پاکستان کو مقبول عام بنانے اور پروان چڑھانے میں جس شاندار کردار کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
ان حضرات کی خدمات جمیلہ اور مساعی جلیلہ کا اعتراف خود قائد اعظم مرحوم اور لیاقت علی خان مرحوم نے بارہا کیا اور اسی کے لیے قائد اعظم نے پاکستان کی پہلی پرچم کشائی علامہ شبیر احمد عثمانی کے ہاتھوں سے کرائی تھی۔