مکہ مکرمہ کا مختصر تعارف

مکہ مکرمہ کا مختصر تعارف تاریخ کے آئینے میں

علمی و تحقیقی مضامین

مکہ مکرمہ کا مختصر تعارف تاریخ کے آئینے میں، مشہور نام، مکہ مکرمہ کی ابتدا، مکہ مکرمہ کا محل وقوع وقوع و حدود اربعہ، مکہ مکرمہ کے مشہور مقامات اور بہت  سی مفید معلومات یہاں موجود ہیں۔ مزید اس طرح کی مفید معلومات کے حصول کے لیے ہماری سائٹ وزٹ کرتے رہیں۔ مدارس کے تمام تعلیمی بورڈز کی مکمل معلومات۔ نصابی و غیر نصابی سرگرمیاں۔ رول نمبر سلپس اور نتائج وغیرہ سے متعلقہ مفید معلومات حاصل کریں۔ اور اپنی مطلوبہ معلومات اور دینی سوالات کے جوابات کے لئے آپ کمنٹس سیکشن یا ایم میل ایڈریس کا استعمال بھی کرسکتے ہیں۔

مکہ مکرمہ کا مختصر تعارف تاریخ کے آئینے میں

مکہ مکرمہ کا پرانا نام ۔البکہ ہے: قرآن پاک میں ہے: للذی ببکۃ مبارکا

مکۃ المکرمہ کے مشہور نام۔

چند مشہور نام یہ ہیں،ان مین سے اکثر کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے۔ مکہ ،فاران، بطحا،تہامہ ،بکہ،ام القراء،القرید،المسجد الحرام،الباد،صلاح الحاطمہ، القادس، ام رحم، ام ژحم الراس، البلد الامین، الباسہ، بیت العتیق، لبادہ، میعاد الوادی، الناسہ، المشاسہ، کوثی، قریۃ النمل۔

مکہ مکرمہ کا محل وقوع۔

محل وقوع: سعودی عرب کے مکہ صوبہ کا دارالحکومت مذہبِ اسلام کا مقدس ترین شہر ہے جدہ سے 73کلومیٹر جبکہ بحیرہ احمر سے 80 کلومیٹر دور وادی فاران میں واقع ہے۔
مکۃ المکرمہ اور مدینۃ المنورہ کے درمیان فاصلہ تقریبا 450 کلومیٹر ہے۔
مکۃ المکرمہ پور ی دنیا کے مرکزی مقام پر واقع ہے۔
مکہ المکرمہ کا موسم: گرم سرد ہوائیں کثرت سے چلتی رہتی ہیں۔
مکۃ المکرمہ کی آبادی:2004ء میں کی گئی مردم شماری کے مطابق 12لاکھ 94 ہزار 167ہے۔

مکہ المکرمہ پر حکومت

صدیوں تک یہ مکہ المکرمہ ہاشمی شرفا ء کی گورنری میں رہا جو خود کو خادم الحرمین شریفین کہلاتے تھے۔
1926 میں سعودیوں نے شریف مکہ کی حکومت کو ختم کرکے مکہ کو سعودی عرب کی حکومت کے تحت شامل کرلیا۔
مکہ المکرمہ میں رہنے والوں کی زبان : یہاں کی قدیم مقامی زبان عربی ہے۔
اہل مکۃ المکرمہ کا زریعہ معاش: مکہ المکرمہ میں رہنے والوں کا زریعہ معاش قدیم زمانہ سے تجارت رہا ہے۔

مکہ المکرمہ کے حدود اربعہ

محمد بن حوقل التوفی نے 331ھ اور 367ھ میں لکھا تھا کہ مکہ مکرمہ کی حد شمالا و جنوبا طول معلا سے مسفلہ تک 3/ میل ہے اور مقام اجیاد سے جبل قعیقعان تک 2-1/1ہے۔(الرحلہ الحجازیہ ص 160،لمحمد لبیب بتونی مصری رحمہ اللہ)

مکۃ المکرمہ میں دخول و خروج کے راستے:

علامہ تقی الدین فاسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس دور میں دروازے وغیرہ تو قطعا ختم ہوچکے ہیں۔اب تین کے بجائے چار راستے بن چکے ہیں۔
۔ 1مشرق میں دو سڑکیں، ایک با ب الشرائع اور دوسرا طریقہ منی
۔2 شمال میں تین سڑکیں ،باب اللصوص ، باب ریع، باب اذاخر
۔3 مغرب میں چار سڑکیں باب جدہ ،ریع ابی لہب ،ریع الکحل اور درب الہنداویہ
۔ 4جنوب میں تین سڑکیں ہیں۔ طریق المفجر ، ریع کدی ، طریق مسفلہ ۔(تاریخ القدیم 2/69)

مکہ المکرمہ کی ابتداء اور اس وقت کی آبادی ۔

اس شہر کو آباد کرنے والے حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں ۔جنہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حکم الہی سے اس بے آباب و گیاہ جگہ میں چھوڑا تھا۔اس کے اطراف میں قبیلہ جرھم آباد تھا ،جو بعد میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ازدواجی سلسلہ میں منسلک ہوگیا تھا۔

مکۃ المکرمہ میں تاریخی و مقدس مقامات

سب سے بڑھ کر یہاں مسلمانوں کا قبلہ مرکزی مقام بیت اللہ موجود ہے جو تمام عبادات کا مرکز ہے۔اسی طرح مسجدالحرام اور اس میں موجود سینکڑوں مقامات موجود ہیں۔
اسلام کا پہلا مدرسہ دار بنی ارقم مسجد الحرام میں موجود ہے۔
زم زم کا کنواں جو کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی برکت سے ظاہر ہوا تھا
جوکہ تقریبا 4000 سال قدیم ہے اور آج تک پوری دنیا اس مبارک کنویں سے مستفید ہورہی ہے۔
جبل الفیل :یہ ہاتھی نما پہاڑ کی 50 میٹر اونچی چٹان ہے۔
کلاک ٹاور:دنیا کا بلند ترین کلاک ٹاور ہے40 ممیٹر طویل اور سطح ارض سے 400 میٹر بلند ہے۔اس کے اوپر بنایا گیا دنیا کا سب سے بڑا چاند ہے جو کہ سطح حرم سے 601 میٹر اونچا ہے۔
الھجرہ روڈ: یہ وہ راستہ ہے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی تھی اس شاہراہ پر کئی یاد گار تاریخی مقامات موجود ہیں۔ جن میں رسول اللہ نے قیام فرمایا تھا۔
نہر زبیدہ:عباسی دور میں خلیفہ ہارون الرشید کی زوجہ ملکہ زبیدہ نے اپنے سفر حج کے موقعہ پر نعمان کوہستانی سلسلہ سے عرفات و مزدلفہ تک تعمیر کرایا تھا۔
جبل النور و غار حرا :مکہ کے مشرق میں واقع ہے ۔اسے جبل الاسلام بھی کہا جاتا ہے۔اس پر غار ِحرا موجود ہےجو کہ 634 میٹر بلندی پر واقع ہے۔ جہاں نبی کریم ﷺ پر پہلی مرتبہ وحی کا نزول ہوا تھا۔
مسجدالحرام سے 4 کلومیٹر کے فاصلے پر عرفات کے راستے میں بائیں جانب واقع ہے۔
غارثور: یہ مسجدالحرام سے چار کلومیٹر دور جنوب میں واقع ہے۔1،25 میٹر بلند ی پر فدار چٹان میں واقع ہے۔ اس کے دو دہانے ہیں، ایک مغرب کی جانب جس سے حضور علیہ السلام اور حضرت ابوبکر صدیق داخل ہوئے تھے۔دوسرا مشرق کی جانب واقع ہے۔
المعلاۃ قبرستان: جبل الحجون کے دامن میں واقع ہے۔بلندی پر واقع ہے اسی لئے اس کا نام یہ رکھا گیا ہے۔
اس کے علاوہ دیگر تفریحی مقامات و اشیاء بے شمار ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *