اقوامِ عالم کے اتحاد کا قیام قرآنی تعلیمات کی روشنی میں

اقوامِ عالم کے اتحاد کا قیام قرآنی تعلیمات کی روشنی میں

جمعہ کے بیانات علمی و تحقیقی مضامین

اقوامِ عالم کے اتحاد کا قیام قرآنی تعلیمات کی روشنی میں۔ قرآن مجید نے عالمی برادری کا کیا تصور پیش کیا ہے۔ اقوام عالم کے اتحاد کے لیے کیا راہنما ہدایات ارشاد فرمائی ہیں، کیا اصول ہیں۔ تمام تر مفید تفصیلات وزٹ کریں۔ مزید اس طرح کی مفید اسلامی معلومات کے حصول کے لیے ہماری سائٹ وزٹ کرتے رہیں۔ دینی تعلیم اور پاکستان میں موجود دینی تعلیم کے تمام وفاقی بورڈ کی مکمل مستند معلومات صرف ایک ہی پیج پر آپ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ تمام دینی طلبہ و طالبات کا مشترکہ پلیٹ فارم ہے۔ مزید معلومات کے حصول کے لئے کمنٹس باکس میں رابطہ کریں۔

اقوامِ عالم کے اتحاد کا قیام قرآنی تعلیمات کی روشنی میں

یا ایھا لناس انا خلقناکم من ذکر و انثی وجعلناکم شعوبا و قبائل لتعاروفوا(الحجرات، 1) ارشاد باری ہے کہ اے لوگو ہم نے تم سب کو ایک مرد ایک عورت سے  پیدا کیا ہے۔ اور تمہیں ہم نے مختلف قوموں اور مختلف خاندانوں میں بنایا ہے، تاکہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ اللہ تعالی کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ شخص ہے۔ جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے، بے شک اللہ تعالی خوب جاننے والا اور پوارا خبردار ہے۔ اللہ رب العزت نے ایک انسان آدم کی تخلیق فرمائی پھر اس سے ان کا جوڑا بنایا پھر ان میں سے بہت سے مرد اور عورتوں کو بکھیر دیا۔ الذی خلقکم من نفس واحدۃ و خلق  منھا زوجھا و بث منھما رجالا کثیرا و نساء (النسا،1)

دینی تعلیمی بورڈز کی مستند معلومات کے وزٹ کریں

عالمی اتحاد کا بہترین اصول مساوات

انسانوں کے پھیلتے پھیلتے قرآن مجید کے مطابق یہ عالمی برادری تصور میں آئی کہ اللہ تعالی نے ان انسانوں میں مختلف خاندان اور مختلف قبیلے بنا دیے تاکہ ایک دوسرے کا تعارف حاصل ہوسکے پوری دنیا میں کسی بھی جگہ کے انسان دوسری جگہ کے انسان سے رابطہ کرنا چاہے،مثال کے طور پر ایک شخص کسی غیر ملک میں بیٹھ کر پاکستان کے کسی شخص سے خط کے زریعے رابطہ کرنا چاہتا ہے تو دنیا کے نقشے میں سے اس ملک کا نام معلوم کرتا ہے جہاں وہ رہتا ہے پھر اس کا صوبہ لکھتا ہے پھر اس صوبے کے کسی ایک شہر کا نام پھر اس کا ڈاک خانہ  اور اس کی حدود میں موجود علاقہ یا محلہ اور پھر محلہ کی  سٹریٹ  گلی نمبر ،مکان نمبر ،مکان میں موجود مختکف اشضاص میں سے کسی ایک کانام لکھ کر متعین کردیتا ہے۔جس سے اس کا پیغام اس کے مطلوبہ شخص تک پہنچ جاتا ہے یہ ہے عالمی برادری کی تقسیم اور اس کا مقصد۔

عالمی برادری کا قیام عصر حاضر کا اہم ترین مسلہ

عصر حاضر کے اہم ترین مسائل میں سے آج کا  ایک اہم مسئلہ عالمگیر برادری کا قیام ہے یعنی اقوام عالم میں عالمگیر برادری کا تصور اجاگر کیا جائےتاکہ اقوام عالم کی راہ ہموار ہوسکے قرآن حکیم کی تعلیم کے مطابق عالمگیر برادری کا قیام تین بنیادی اور فطری اصولوں کے مطابق ممکن ہے۔نمبر1۔  وحدت نسل انسانی۔نمبر 2۔ وحدت فکر انسانی 3۔احترام انسانیت

عالمگیر برادری کے قیام کے لیے قرآنی اصول

اسلام وحدت  نسل انسانی کا داعی ہے ۔قرآن حکیم نے سورۃ نسا میں واضح ارشاد فرمایا ہے کہ

یا ایھا لناس اتقو ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ

اور سورہ حجرات میں فرمایا: یا ایھا الناس انا خلقناکم من ذکر و انثی۔

لہذا وحدت نسل انسانی کی بنیاد پر اللہ تعالی نے تمام انسانوں کو ایک عالمگیر برادری میں پرودیا۔ لیکن عالمگیر برادری کے قیام کے لیے صرف نسل انسانی کو ایک سمجھنا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے وحدت فکر انسانی کی ضرورت تھی۔

قرآنی تعلیمات اور انسانی شعور

انسان کو اجتماعی اور انفرادی زندگی  کے لیے جن اصولوں اور جس بنیادی فکر کی ضرورت تھی   اسے آسمانی کتابوں کی صورت میں مہیا کردیا گیا۔

لیکن انسانوں نے ان تعلیمات کو بھلا کر خود ساختہ مصنوعی فکر ی خاکے مرتب کرنے شروع کردئیے جس کی وجہ سے باہمی اختلافات بڑھتے چلے گئے۔اسلام نے غور و فکر سے منع نہین فرمایا

بلکہ غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے اور عقل کی صحیح راہنمائی کے لیے کچھ اصول مقرر کیےہیں۔ لہذا وہی فکر صحیح ہوگی جو قدرتی اصولوں کی روشنی میں ہوگی۔ قرآنی اصولوں کے خلاف جو بھی  راستہ اختیار کیا جائے گا وہ ہلاکت و بربادی کی طرف لے جائے گا۔اس لئے کہ وعدہ سے فکر کے لیے جو رخ قرآن نے دیا ہے. وہ خالق ِکائنات اور رب العالمین کی طرف سے ہے۔ انسانی سوچ جب  بھی اصول بنائے گی وہ اصول صرف اپنے علاقے اپنے محلے اپنے مفادات کے مطابق ہوگا. لہذا اس پر عالمگیر برادری کا قیام کس طرح ممکن ہوسکے گا۔

عالمگیر برادری کا تیسرا اصول قرآن کی روشنی میں

اس لیے عالمگیر برادری کے قیام کے لیے اب تیسرے اصول کی ضرورت ہوگی وہ ہے احترام انسانیت، ارشاد باری ہے کہ:

ولقد کرمنا بنی آدم

اور ہم نے آدم کی اولاد کو قابل عزت بنایا

اقوام متحدہ کا انصاف اور عالمگیر برادری کا قیام

آج دنیا میں عالمی برادری کے حقوق کے لیے کئی چھوٹی بڑی تنظیمیں کام کررہی ہیں ۔

احترام انسانیت کی دعویدار بھی ہیں۔ لیکن احترام انسانیت کے اصولوں کا جب عالمگیر بنیادوں پر استحکام نہ ہو تو پھر عالمگیر برادری کا قیام انتہائی مشکل ہے۔ یہ بات سوچنے کی ہے کہ دنیا کے ایک خطے میں کچھ لوگوں پر ایک طویل عرصے سے ظلم ہورہا ہو اور اس پر ان کے کان پر جون تک نہ رینگتی ہو اور دوسری طرف کسی خطے کے انسانوں کو بخار بھی آجائے اور یہ عالمی ادارے حرکت میں آجائیں۔ تو پھرعالمگیر برادری کے حقوق میں انصاف کہاں رہا۔

 اس لیے قرآن حکیم میں کہا گیا:

ولا یجرمنکم شنان قوم علی ان لا تعدلو

اور تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف سے کام نہ لو

تفریق مذاہب اور عالمگیر برادری

یہ بات درست ہے کہ قرآن حکیم نے پوری انسانیت کو مومن اور کافر میں تقسیم  کیا ہے لیکن اس کے باوجود رواداری کے اصول سے عالمگیر برادری کو جوڑے رکھا اور کہا۔

لاتسبوا  الذین  یدعون من دون اللہ فیسبو اللہ عدوا بغیر علم

عالمی اتحاد اور عالمگیر برادری کےلیے نقصان دہ امور

لہذا عالمگیر برادری کے لئے نقصان دہ چیزوں میں قومی، وطنی تعصب، لسانی تعصب، رنگ و نسل کے امتیازات کی بنیاد پر تعصب شامل ہیں۔ قوم وطن زبان رنگ نسل کا اختلاف نقصان دہ نہیں یا تو فطری تقسیم کیے جائیں اور جب ان بنیادوں پر انصاف مہیا ہونے لگے اور ان ہی بنیادوں کو عزت اور ذلت کا معیار بنالیا جائے تو پھرعالمگیر برادری کا قیام ناممکن ہے۔

قرآن حکیم کی تعلیمات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا منشاء وھدت قانون کی بنیاد پر تمام نوع انسانی کو عالمگیر برادری بنانا ہے۔

قرآن حکیم میں خالق کائنات نے اپنے آپ کو رب العالمین کہا اور قیامت تک کے لیے جو ذات راہنمائی کے لیے آئی انہیں رحمۃ اللعالمین فرمایا۔

جب مالک رب العالمین ہے اور نبی رحمۃ اللعالمین ہے تو پھر عالمگیر برادری کا تصور بھی وہی درست ہوگا جو رب العالمین نے اسلام کی صورت میں عطاء کیا ہے ۔

اسلامی تعلیمات اور کمیونزم

یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جب عالمگیر برادری کے تصور کو قرآنی تعلیمات کے مطابق اجاگر کرنے کی کوشش کی جائے تو پھر ذھن کو کمیونزم کی طرف نہ جانے دیا جائے اور جب حقوق کی مساویانہ تقسیم  کی بات کی جائے تو اشتراکیت معنی سوشلزم کی طرف بھی زھن کو نہ جانے دیا جائے،ہوسکتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے کچھ پہلو  ان کی طرف جاتے  ہوئے نظر آئیں لیکن قرآنی اصولوں کی جزوی مشابہت کی بنا پر یہ نہ کہا جائے گا کہ اسلام اور کمیونزم ایک ہی ہیں یا اسلام اور اشتراکیت ایک ہی ہیں۔عالمگیر برادری کا تصور ممکن ہے کہ دیگر انسانی ذہن سے پیدا ہونے والے نظاموں میں موجود ہو۔لیکن اسلام نے قرآن حکیم کے زریعے جس عالمگیر برادری کا تصور دیا ہے اس کے اصول و ضوابط قابل عمل ہیں اور ہر خطے کے لوگوں کی فطرت کے عین مطابق ہیں۔طناطہ قرآن حکیم کےان عالمگیر  اصولوں پر عمل کرکے پوری انسانیت کے سامنے رکھا۔ یہاں تک کہ اعلاء کلمۃ اللہ یعنی اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جہاد بھی کیا گیا تو اس میں بھی عالمی برادری کے بنیادی حقوق کا خیال رکھا گیا ۔

  دنیا کے سامنے عالمی برادری کے قیام کی عملی مثال

چنانچہ قرآن حکیم کے ان عالمگیر اصولوں پر رسول اکرم نے مدینہ طیبہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد عمل کر کے پوری انسانیت کے سامنے رکھا۔ یہاں تک کہ اعلاء کلمتہ اللہ یعنی اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے جہاد بھی کیا گیا تو اس میں بھی عالمی برادری کے بنیادی حقوق کا خیال رکھا گیا۔ اور پھر رسول اکرم کے بعد خلفائے راشدین نے بھی قرآن حکیم اور سنت کے مطابق انسانی حقوق کی ادائیگی کا ہرلمحہ خیال رکھا۔ یہاں تک کہ ان صحابہ کرام کا عالمی برادری کے سامنے جو کر دار تھا اس کردار کو دیکھتے ہوئے کئی علاقوں کے لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ اور یہی صحابہ کرام جو قرآن وسنت کی تعلیمات میں خوب رنگے ہوئے تھے جب عالمگیر تجارت کے نقشہ پر آئے اور تجارتی منڈیوں میں قدم رکھا تو ایک وقت ایسا آیا کہ مسلمان تاجر عالمی منڈیوں پر چھائے ہوئے تھے۔ ان کی ذہانت ،صداقت اور امانت اسلام کی اشاعت کا ذریعہ بنی۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ مسلمانوں نے صرف قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل کر کے عالمی برادری میں اپنا ایک مقام پیدا کیا تھا۔

اللہ رب العزت قرآن حکیم کی ان تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ایک بار پھر عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق عالمی برادری میں

ہمدردی محبت اور انس کی فضا قائم فرمادے۔

و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

2 thoughts on “اقوامِ عالم کے اتحاد کا قیام قرآنی تعلیمات کی روشنی میں

  1. مضمون ہم نے بغور پڑھا ماشاء اللہ خوب رہا، لیکن بعض مقامات پر کچھ تفصیلی بات اور مثال ہونی چاہئے تھی جس سے اسلام کے نظام اتحاد کی خوبی اور واضح ہوتی… جیسے موجودہ نظام اتحاف کے اصول کا رد، مختلف مذاہب میں باوجود دعوے نظام کے نہ ہونے کی حقیقت، یہ چیزیں بھی اس موضوع میں ہر جگہ بیان ہونی چاہئے،،،،….

    1. جزاکم اللہ شیخ۔ للہ رب العزت آپ کو جزائے خیر عطاء فرمائے۔ جتنا ہماری وسعت میں تھا ہم نے جمع کر کے شائع کردیا ہے۔ مذید ان تمام قیمتی معلومات پر مشتمل کچھ قیمتی ذخائر اگر آپ اپنے نام سے ہی شائع کرانا چاہتے ہیں۔ تو ہم سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ کسی بھی عنوان،موضوع پر آپ مقالہ، کالم مضمون آپ لکھ کر بھیجنا چاہیں۔ تو نوازش ہوگی۔ اور ہم اس کو آپ کے اسمِ گرامی کے ساتھ ہی شائع کردیں گے۔ جزاکم اللہ خیرا کثیرا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *