اسلامی فلاحی ریاست کے بنیادی اصول حدیث ﷺ کی روشنی میں کون کون سے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل حکومت کے لیے کیا اصول مقرر فرمائے ہیں ،اور ایک اسلامی فلاحی ریاست کے حصول کے لیے کیا ہدایات ارشاد فرمائی ہیں ، تمام تر تفصیلات وزٹ کریں ۔
اسلامی فلاحی ریاست کے بنیادی اصول حدیث ﷺ کی روشنی میں
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا :عادل منصف حاکم اللہ تعالی کے ہاں نور کے ممبروں پر اور اللہ تعالیٰ کے داہنے ہاتھ پر ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں، ہاں وہ عادل جو اپنے احکام میں اپنے اہل میں اور اپنی ولایت و حکومت میں عدل کرتے ہیں۔
عادل حاکم کا مرتبہ
دیگر احادیث میں بھی حاکم کے لئے رہنما اصول معلوم ہوتے ہیں ، جیسے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی کے نزدیک قیامت کے دن مرتبہ کے اعتبار سے اللہ تعالی کے بندوں میں سب سے بہتر عادل اور نرمی کرنے والا حاکم ہے اور بدترین شخص سختی کرنے والا ظالم حاکم ہے۔ (بہیقی) حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے میں اللہ ہوں کوئی معبود میرے علاوہ عبادت کے قابل نہیں ، میں بادشاہوں کا بادشاہ ہوں، بادشاہوں کے دل میرے ہاتھ میں ہیں اور بندے جب کہ میری اطاعت کرتے ہیں پھیر دیتا ہوں میں بادشاہوں کے دلوں کو ان کی طرف رحمت و شفقت کے ساتھ ، اور جب بندے میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں بادشاہوں کے دلوں کو ان کے لئے بنا دیتا ہوں سخت و غضبناک پھر جب برے بادشاہ ان کو بڑی سزا دیں تو اس وقت وہ اپنے آپ کو بادشاہوں کے لئے بددعا میں مشغول نہ کریں بلکہ میرے ذکر میں مشغول ہوں اور عاجزی وزاری کریں تا کہ میں تمہارے بادشاہوں کے شر سے تم کو بچاؤں ۔ (حلیہ)
حاکم کے لیے پہلا اصول
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے اصحاب میں سے کسی کوکسی کام پر مامور کر کے بھیجتے تو فرماتے لوگوں کو خوشخبری دو نفرت نہ لا ؤ، آسانی کرو اور دشواری میں نہ ڈالو۔ ( بخاری و مسلم)
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ (اے حاکمو!) تم ( رعیت پر ) آسانی کرو دشواری میں نہ ڈالو تسکین دو نفرت نہ پیدا کرو۔
( بخاری و مسلم )
نبویﷺ دور کے حاکم کو ہدایات
حضرت ابی بردہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے دادا ابو موسیٰ اور معاذ رضی اللہ عنہا کو یمن بھیجا ( یعنی امر وحاکم بنا کر ) اور فرمایا آسانی کرنا ، مشکل میں نہ ڈالنا، خوشخبری دینا، نفرت نہ پیدا کرنا اور دونوں متحد و متفق رہنا اختلاف نہ کرنا۔
( بخاری ومسلم )
غیر عادل،خود غرض حاکم کی سزا
حضرت عمر بن مزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے کسی کام کا والی و حاکم بنایا اور وہ ان کی حاجت، ضرورت مطلب اور افلاس سے چشم پوشی کرے تو اللہ تعالٰی اس کی حاجت ، مطلب اور افلاس سے چشم پوشی کرےگا۔ ( یہ سن کر ) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی مقرر کیا کہ وہ لوگوں کی ضروریات پر نظر رکھے اور ان کو پورا کرتا ر ہے۔ (ابوداؤ دوتر مندی)
حضرت شماخ ازدی رضی اللہ عنہ اپنے چچازاد بھائی سے روایت کرتے ہیں جو صحابی ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کہامیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کولوگوں کے کس کام پر مامور کیا گیا ہواور پھر اس نے اپنے دروازے کو مسلمانوں کے لئے یا مظلوم یا حاجتمندوں پر بند کر دیا ہو تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے دروازوں کو اس کی ضرورت و حاجت اور مفلسی کے وقت بند کرے گا خصوصا جب کہ وہ بہت زیادہ محتاج ہوگا ۔ ( بیہقی )
ازخود حکومت طلب کرنے پر وبال
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جس شخص نے مسلمانوں کی حکومت و امارت طلب کی اور وہ اس کو مل گئی اور پھر اس کا انصاف اس کے ظلم پر غالب رہا تو اس کو جنت ملے گی اور جس کا ظلم اس کے انصاف پر غالب رہا اس کے لئےدوزخ ہے۔
(ابوداؤد شریف)
حضور ﷺ کی حضرت معاذ رض کو ہدایات
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو یمن روانہ فرمایا تو دریافت فرمایا کہ جب کوئی معاملہ تیرے سامنے آئے گا تو کس طرح اس کا فیصلہ کرے گا ؟ عرض کیا “کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کروں گا ۔ فرمایا: ” اگر کتاب اللہ میں اس بات کو نہ پائے تو ؟ عرض کیا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ فرمایا: اگر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی وہ بات نہ ملے ؟ عرض کیا ” اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اجتہاد میں کوتاہی نہ کروں گا معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینہ پر ہاتھ مارا اور فرمایا تمام تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو اس امر کی توفیق عطا فرمائی کہ اس سے اللہ تعالیٰ کا رسول اللہ راضی ہے۔
(ترمذی، ابوداؤد)
حضور ﷺ کی حضرت علی رض کو ہدایات۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو عامل بنا کر یمن بھیجا میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ مجھ کو حاکم بنا کر بھیج رہے ہیں میں نوجوان ہوں، اور حکومت کرنے کا طریقہ بھی مجھ کو معلوم نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تیرے دل کی رہنمائی کرے گا اور تیری زبان کو ثابت رکھے گا۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب کوئی شخص کوئی معاملہ لے کر تیرے پاس آئیں تو، توں پہلے شخص یعنی مدعی کے حق میں اس وقت تک فیصلہ نہ کر جب تک کہ دوسرے کے بیان کو نہ سن لے ۔ اس لئے کہ مدعی علیہ کا بیان تجھ کو حکم دینے میں مدد دے گا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے بعد کسی معاملہ کے اندر فیصلہ کرنے میں شک نہیں کیا۔
(ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ )
رشوت خور حاکم کے لیے وعید
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس شخص نے کسی حاکم یا امیر سے کسی کی شفارش کرے اور پھر اس حاکم کو ہدیہ بھیجے اور وہ اس ہدیہ کوقبول کرلے تو اس کا یہ عمل ایسا ہے گویا کہ وہ سود کے ایک بڑے دروازے میں داخل ہوا۔
(ابوداؤد)